Skip to main content

Na muraad shayeri

فرض شناس شعرأ سے معذرت کے ساتھ
نامراد شاعری
سید پیغمبرعباس نوگانوی
اسلام سے جتنے بھی باطل فرقے علیحدہ ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں ان کی پشت پرایک خاص مقصد کے لئے سیاسی طاقتوں کا ہاتھ رہتا ہے اور جو فرقہ اور گروہ جس حکومت کا منظور نظر ہوجاتا ہے اسے پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملتا ہے ،انہی میں غالیوں کا گروہ بھی شامل ہے جو شیعوں کی تباہی اور اہل البیت(ع) کی توہین کے لئے وجود میں لایا گیا تھا ، چونکہ مذہب اہل البیت (ع) ایک محکم اور مضبوط اسلامی مرکز تھا جس میں باطل کا گزر ممکن نہ تھااس لئے سیاست نے غالیوں ﴿ملنگوں اورنصیریوں﴾ کا سہارا لیا جس سے بیک وقت اسلام کو مٹانے اور اہل البیت (ع) کی توہین کی کوشش کی گئی .
اہل البیت (ع) نے بروقت ان دوست نما دشمنوں کی حقیقت کو ظاہر فرمایا اور یہ اعلان کیا کہ یہ غالی دین کے دشمن ہیں اور ملعون ہیں ،شیعوں کا فرض ہے کہ ان سے دور رہیں اور بیزاری اختیار کریں ،شیعوں نے بھی ان احکام کے زیر اثر اپنی بیزاری کا اعلان کیا ، ان سے میل جول نہیں رکھا ، انہیں نجس سمجھا ، انہیں زکوٰۃ نہیں دی ، ان کے مُردوں کو غسل و کفن خلاف شرع سمجھا اوران سےازدواجی تعلقات یا وراثت کے رشتے بھی ناروا سمجھے ، اسی طرح تمام مراجع تقلید نے بھی انہیں مشرک سمجھا ہے لیکن بعض شعرأ کس طرح اپنے اشعار میں مکتب اہل البیت(ع) کی مخالفت کرتے ہوئے غالیوں﴿نصیریوں﴾ کو نوازتے ہیں اور پھر بھی ایسے شاعر ،شاعر اہل بیت(ع) کہلاتے ہیں؟!شاعروں کی فکر کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے اشعار میں کسی نہ کسی طرح مشرک اور نجس نصیریوں کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں اور عوام بھی اتنی بے شعور ہوگئی ہے کہ جو شاعر ،نجس نصیریوں کوزیادہ دلیری سے نظم کرتا ہے اسے اتنا ہی بڑا مولائی سمجھا جاتا ہے ،اگر مولائیت کا یہی معیار ہے تو خدا بچائے ایسی مولائیت سے .
یہ بات اہل نظر سے پوشیدہ نہیں ہے کہ کسی بھی فکر اور تحریک کوپروان چڑھانے میں اہل قلم اور مقررین کے ساتھ ساتھ شعرأ کا اہم کردار ہوتا ہے ،اہل البیت(ع) کی فکری تحریک میں بھی یہ عنصر نمایاں ہے ،بنی امیہ اور بنی عباس و دیگر ظالم حکمرانوں کی طاقتور ترین پروپیگنڈہ مشینری جب عروج پر تھی اور اہل البیت(ع) کی فکری تحریک پر ضرب لگانے کی کوشش کررہی تھی تو اس وقت بھی شعرائے اہل البیت (ع) نے اس پروپیگنڈے کو بے اثر بنانے میں اہم کردار ادا کیاتھا ،جن میں ابو الاسود دؤلی ،کمیت اسدی ،حمیری، ابو تمام طائی ، فرزدق ، دعبل خزاعی، صاحب بن عباد، ناشی الصغیر، شریف رضی، مہیار دیلمی ، راوندی، قاضی نظام الدین ، شمس الدین محفوظ ، علاء الدین حلی، ابن العرندس، حافظ البرسی، البہائی، ابن ابی الحسن عاملی، حر عاملی ، مقری کاظمی کے اسمائے گرامی سر فہرست ہیں ،یہ شعرائے اہل البیت (ع) اپنے بہترین اشعار کے ذریعہ اہل البیت(ع) اور ان کی مقدس فکراور تحریک کی حمایت میں جان تک کی بازی لگادیتے تھے ، ایسے ہی مداحان اہل البیت (ع) کے لئے ہر شعر کے عوض جنت میں ایک گھر کا وعدہ کیا گیا ہے ،چھٹے امام (ع) فرماتے ہیں :
جو شخص ہمارے بارے میں ایک شعر کہے اللہ تعالیٰ اس کے عوض میں اس کے لئے جنت میں ایک گھر تعمیر فرماتا ہے  (1 )
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان شعرائے اہل البیت (ع) اور اہل البیت (ع) نے شاعری کو وہ معراج عطا کی جو کوئی نہ کرسکا ،ورنہ شاعری تو بادشاہوں ، حاکموں اور مالداروں سے چاپلوسی کا ذریعہ تھی جس کی معراج اشرفیوں کی تھیلی ہوتی تھی اور بس !مگران شعرائے اہل البیت (ع) نے شاعری کو ایک خاص مقصد کے لئے وقف کرکے شاعری کی آبرو بچالی اور اسے وہ مقام عطا کیا جو کوئی اور کرہی نہ سکا.
ہندوستان میں بھی چاہے تحریک دینداری ہو یا تحریک عزاداری ، شعرأ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اوراجر رسالت (ص) ادا کیا ہے ،ان شعرا کے اشعار کسی بھی طرح نثر لکھنے والوں سے کم نہ تھے ،بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ ایک ایک شعر نثر کے ایک ایک صفحے پر بھاری تھا یعنی جو مفہوم شاعر نے اپنے ایک شعر میں پیش کردیا ،نثر نگار ایک صفحے میں نہیں کرپائے ، یہ تو عزاداران امام مظلوم (ع) نے اکثر دیکھا ہوگا کہ ذاکر جس مصائب کے مفہوم کو15منٹ کی تقریر میں پیش کرتا ہے اور مومنین گریہ کرکے مثاب ہوتے ہیں وہی مفہوم شاعر اپنے نوحے یا سلام کے ایک شعر میں پیش کردیتا ہے اور مومنین اسی طرح گریہ کرتے ہیں ، انگریزی زمانے میں اگر کوئی خطیب لوگوں میں آزادی کا جوش و ولولہ بھرنا چاہتا تو پورا عشرہ درکار تھا لیکن جوش ملیح آبادی کا ایک ہی مرثیہ انقلاب کی آواز بن گیا ،البتہ خطابت کی اپنی افادیت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ،لیکن شعرأ کے اشعار اسی وقت لائق تحسین اور باعث اجرو ثواب ہیں جب اہل البیت(ع) کی فکر سے ہم آہنگ ہوں اور اگر اہل البیت(ع) کی فکر اور تعلیم کے دائرے سے باہر ہوں گے تو پھر ان کا مقصد فوت اور افادیت ختم ہوجائے گی ،اور بجائے ثواب کے گناہ ہوگا.
جب ہم قدیم شعرأ پر نگاہ ڈالنے کے بعد دور حاضر کے بعض شعرأ کے کلام کو دیکھتے ہیں تو بڑی مایوسی ہوتی ہے ،دور حاضر کے بعض شعرأ کے کلام میں فکر و علم کی کمی اور عقائد کا فقدان نظر آتا ہے اور ان کے اشعار عقیدے کے بجائے عقیدت میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں ،جب کہ عقیدہ وہ حقیقت ہے جس کے صحیح ہونے پر ہی جنت کا دارومدار ہے اور عقیدت آستھا کا دوسرا نام ہے جو بغیر معرفت کے کسی سے بھی ہوسکتی ہے جس پر نجات کی ضمانت نہیں ہے ، ایسے شعرأ کے کلام میں فکر اہل البیت (ع)کم ہی نظر آتی ہے بلکہ کبھی کبھی تو مدح اہل البیت (ع) کے نام پر ایسے اشعار سننے کو ملتے ہیں جو فکر اور مقصد اہل البیت (ع) دونوں کے لئے مضر ہوتے ہیں ،دور حاضر کے شعرأکے اشعار میں جو چیز سب سے زیادہ خطرناک نظر آرہی ہے وہ نصیریت کی ترویج ہے جو اہل البیت (ع)کی فکر کے سو فی صد خلاف ہے اور یہ چیز اُس سازش کا حصہ بن سکتی ہے جو شیعیت کے خلاف عالمی پیمانے پربنی امیہ کے زمانے سے چلائی جارہی ہے،اس سازش کی طرف امام رضا(ع) نے بھی اشارہ فرمایا ہے ، آپ(ع) فرماتے ہیں کہ:
اے ابن ابی محمود ! ہمارے مخالفوں نے تین طرح کی روایات جعل کی [گڑھی] ہیں  ،۱۔ ایسی روایات جن میں ھمارے فضائل کے سلسلے میں غلوسے کام لیا گیا ہے ، ۲۔ ایسی روایات جن کے ذریعہ ہمارے حق میں کوتاہی کی گئی ہے ، ۳۔ وہ روایات کہ جن میں ہمارے دشمنوں کی عیب جوئی ہے ، جب لوگ غلو والی روایات کو دیکھیں گے تو ہمارے دوستوں کو کافر قرار دیں گے اور کہیں گے کہ شیعہ اہل بیت کو خدا مانتے ہیں
دوسری قسم کی روایات کو دیکھ کر لوگ ہم اہل بیت کو عام افراد کے مانند سمجھیں گے اور اسی حد تک اہلبیت کے عقیدت مند ہوں گے
اور جب تیسری قسم کی روایات کو دیکھیں گے کہ ان میں ہمارے دشمنوں کی توہین کی گئی ہے تو وہ پلٹ کرہماری توہین کریں گے اور ہمیں برا بھلا کہیں گے  (2)
اس نسبت کی وجہ سے ہی غیر شیعہ مولفین نے غلو کو مطلق طور پر شیعہ امامیہ سے منسوب کردیا جس کو بنیاد بناکر وہ تمام ہتھکنڈے اپنائے جا رہے ہیں جس سے شیعوں کو غیر مسلم کہہ کر طالبان یا وہابیوں سے اُن کا قتل عام کرایا جائے ، شیعوں کو اسی لئے دشمنوں کی جانب سے سبائی مشہور کرکے غیر مسلموں کی صفوں میں ڈھکیلنے کی کوشش کی گئی ہے ،محقق یگانہ علامہ مرتضیٰ عسکری مرحوم کی تحقیق کے مطابق ’’سیف بن عمر تمیمی‘‘ نے بڑی چالاکی سے ’’عبداللہ ابن سبا‘‘ کی شخصیت کو جعل کیا ،پھر اسے شیعہ مذہب کے بانی کے طور پر نشر کیا اور پھر سیکڑوں روایتیں جعل کرکے عالم اسلام میں پھیلادیں تاکہ عالم اسلام میں شیعہ مسلمانوں کو ایسا بناکر پیش کیا جاسکے جو حضرت علی (ع)کو خدا یا خدائی میں دخیل جانتے اور مانتے ہیں یعنی شیعوں کا توحید خدا پر اعتقاد نہیں ہے نتیجتاً شیعہ غیر مسلم ہیں اور پھر اس نتیجہ پر تکیہ کرتے ہوئے زرخرید مفتیوں کو شیعوں کے قتل عام کے لئے فتوے صادر کرنے کا بہانہ مل جائے ،ایسے زرخرید مفتی شام کے ’’حلب‘‘ میں ایسے ہی عقائد کو بنیاد بناکر ہزاروں شیعوں کا قتل عام پہلے ہی کراچکے ہیں .
ان سازشوں سے بھر پور دفاع کرتے ہوئے علامہ مرتضیٰ عسکری نے ’’عبداللہ ابن سبا‘‘ کے موضوع پر حق تحقیق ادا کیا ہے جس کا اردو ترجمہ دوجلدوں میں ’’مجمع جہانی اہل بیت (ع) ‘‘ ایران سے شائع ہوچکا ہے ، یہ تحقیق مرحوم کی بیس سال کی محنتوں اور زحمتوں کا ثمرہ ہے ،جس میں مرحوم نے ایسے تمام عقائد اور روایتوں کو جعلی ثابت کیا ہے جس کی نسبت شیعوں کی طرف دی جاتی ہے ، اور یہ مرحوم کا بہت بڑا کارنامہ ہے ،مگر افسوس بعض غیر ذمہ دار شاعر مرحوم کی اس محنت پر بری طرح پانی پھیر رہے ہیں ،یہ اندازہ ان کے اشعار سے ہوتا ہے ،ان اشعار سے ایسا بھی محسوس ہوتا ہے جیسے شیعوں کے خلاف سیف بن عمر تمیمی کی گھڑی ہوئی تمام روایات صحیح ہوں ،مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
چھوڑ نصیری مان گئے ہم
ان کی خدائی تا حد امکاں
اس شعر میں نصیریوں کو سمجھانے کے بجائے ان کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کی ترغیب دلائی گئی ہے جو شعرائے اہل البیت (ع)کا وطیرہ نہیں ہے،اور شیعہ عوام کو دھوکہ دینے کے لئے ’’حد امکاں ‘‘کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے ،عوام کے ذہن میں ’’حد امکاں ‘‘ کی تفصیل تو نہیں آئے گی البتہ حضرت علی (ع)کی خدائی ضرور ذہن نشین ہوجائے گی جو عقیدہ توحید کے لئے مضر ہے اور تاریخی اعتبار سے بھی یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ نصیریوں کا گروہ حضرت علی (ع) کے زمانے میں نہیں بلکہ امام علی نقی (ع) کے زمانے میں وجود میں آیا تھا .
اس کے علاوہ یہ شعر بھی ملاحظہ ہو جو اہل البیت (ع) کی فکر کے خلاف ہے ،شاعر کہتا ہے :
سروش آج میری نظر میں نہیں ہیں
نصیری سے بہتر اذاں دینے والے
نصیری کیا جانیں اذان اور اس کا فلسفہ ! نصیریوں کے یہاں تونہ نماز کا اہتمام ہوتاہے اورنہ ہی ان کی سمجھ میں اللہ آیا ہے تو وہ اذان کیا کہیں گے ،اذان تو موحدوں کی پہچان ہے اور نصیری ٹھہرے مشرک!
اس کے علاوہ یہ شعر بھی فکر اہل البیت (ع) سے عاری اور سیف بن عمر تمیمی کی روایتوں کا ماحصل معلوم ہوتا ہے ،ملاحظہ ہو:
علی (ع)نصیبوں میں ترمیم کرنے والا ہے
علی (ع)ہی رزق کا تقسیم کرنے والا ہے
جب کہ خدا وند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :’’اور ﴿وہی سب کو﴾ روزی دیتا ہے اور اس کو کوئی روزی نہیں دیتا اور زمین پر چلنے والوں میں کوئی ایسا نہیں جس کی روزی خدا کے ذمہ نہ ہو (3)نہ جانے شاعرکو قرآن و عترت کی فکر کے خلاف یہ بات کہاں سے معلوم ہوگئی ، اگر حضرت علی (ع) روزی تقسیم کرنے والے ہوتے تو آپ (ع)اتنی وضاحت سے یہ نہ فرماتے:
اسی ﴿اللہ﴾ نے سب کے رزق کو تقسیم کیا ہے (4)
بعض ذاکر و شاعر اس قسم کے غلو آمیزمجلس کے نکات یا اشعار کی عمارت سید محمد صالح کشفی سنی الحنفی کی کتاب ’’کوکب دری ‘‘ اور امیرالمومنین امام علی (ع) سے منسوب ’’ خطبۃ البیان ‘‘ پر کھڑی کرتے ہیں ، سید محمد صالح کشفی سنی المذہب صوفی تھے لہٰذا کوکب دری کی ہر عبارت پر شیعہ بھروسہ نہیں کرسکتے اب رہا امیر المومنین امام علی (ع) سے منسوب خطبۃ البیان ،جس کی سند   ’’کتاب الزام الناصب‘‘مطبوعہ بیروت کے جلد2، صفحہ148  پر شیخ علی یزدی حائری نے اس طرح تحریر کی ہے : حدثنا محمد بن احمد الانباری ، قال حدثنا محمد بن احمد الجرجانی قاضی ، قال حدثنا طوق بن مالک عن ابیہ عن جدہ ، عن عبداللہ ابن مسعود رفعہ الی الامام علی بن ابی طالب (ع) لما تولی الخلافۃبعد الثلاثۃاتیٰ الی البصرۃ فرقی جامعھا و خطب الناس. اس سند میںآیا ہے کہ : طوق بن مالک اپنے باپ ﴿مالک﴾ اور اپنے دادا سے اس خطبہ کو نقل کررہاہے ، جب کہ طوق کا دادا رجالی اعتبار سے مجہول ہے .
دوسرے یہ کہ اس سند میں آیا ہے عن عبداللہ ابن مسعود رفعہ الی الامام علی بن ابی طالب(ع) یہ خطبہ مذکورہ کتاب الزام الناصب میں امیرالمومنین (ع) سے  بصرہ کی شورش دبانے کے بعد﴿ سن 36ہجری میں﴾ ایراد فرمانا منسوب ہے اور عبداللہ ابن مسعود 32یا 33ہجری میں فوت ہوگئے تو انہوں نے خود اس خطبہ کو کہاں سے سن لیا ! ؟
تیسرے یہ کہ اس سند میں رفعہ الی الامام علی بن ابی طالب(ع) آیا ہے پس یہ روایت مرفوع ہے یعنی ایک یا ایک سے زیادہ راوی اس کی سند سے حذف ہوگئے ہیں جس کی تصریح لفظ ’’رفعہ‘‘ سے کی گئی ہے اور شیعہ نقطہ نگاہ سے ایسی حدیث ضعیف ہوتی ہے .
چوتھے یہ کہ آیت اللہ جواد تبریزی ، علامہ کشّی ، میرزای قمی وغیرہ نے اس خطبہ کو ردّ کیا ہے اور کلینی، ابن بابویہ ﴿شیخ صدوق﴾ ، شیخ مفید ، سید مرتضیٰ ،سید رضی ، شیخ طوسی ، علامہ مجلسی اور ملا محسن فیض کاشانی جیسے محققین نے اس خطبہ کواپنی کتابوں میں نقل کرنے سے پرہیز کیا ہے ،اور جن دیگر علمائ نے اس کو نقل کیا ہے وہ یا تو صوفی ہیں یا صوفیوں سے متاثر ہیں ، لہٰذا یہ خطبہ معتبر نہیں ہے، میرزای قمی نے نہ صرف اس خطبہ کو بلکہ آپ (ع) سے منسوب خطبۂ تطنجیہ ، افتخاریہ اور نورانیہ کو بھی ردّ کیا ہے کیونکہ یہ بھی صوفیوں کی کتابوں منجملہ حافظ رجب برسی کی کتاب ’’مناقب‘‘ میں پائے جاتے ہیں .
سیف بن عمر تمیمی کے ذریعہ گھڑے گئے عبداللہ ابن سبا کے فرضی کردار اور فاسد عقائد منجملہ عقیدۂ تفویض جو اس نے شیعوں کے نام سے لوگوں میں پھیلائے اور اس عقیدہ سے متعلق جب امام صادق (ع) کے شاگرد رشید ’’زرارہ‘‘ نے امام (ع) کو مطلع کیا تو امام (ع) نے فرمایا کہ : تفویض سے کیا مراد ہے ؟ زرارہ نے کہا کہ وہ ﴿غالی﴾ لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے محمد (ص) و علی (ع)کو خلق کیا اس کے بعد سارے امور ان کو تفویض ﴿حوالے﴾ کردیئے لہٰذا اب یہی لوگ رزق تقسیم کرتے ہیں اور موت و حیات کے مالک ہیں ، یہ سن کر امام (ع) نے فرمایا کہ:
وہ دشمن خدا ہیں ، جھوٹ بولتے ہیں (5)
اس کے علاوہ ایک شاعر نے نصیریوں کی فکر سے اپنے شعرکو مزین کرتے ہوئے بڑی چالاکی سے اعلان کیا ہے ،وہ کہتا ہے :
تاکید ہے مولا کی جو ہم کہہ نہیں سکتے
یہ بات بتائے گا نصیری ، ہے خدا کون
نصیری کیا بتائے گا کہ خدا کون ہے؟ نصیری کو توخود ہی نہیں معلوم وہ تو گمراہی کی وادیوں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں ،یہ تو ائمہ معصومین (ع) ہی سے معلوم کرنا چاہئے کہ خدا کون ہے اور کیسا ہے ، امام علی (ع) فرماتے ہیں :
ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو بغیر دیکھے معروف اور بغیر سوچے پیدا کرنے والاہے .وہی سب کا معبود اور سب کا رازق ہے(6)
ایسے شاعروں کی ٹیڑھی فکر اچھے بھلے نوجوانوں کو گمراہ کرسکتی ہے ،آخر ایسے شاعروں کو مدعو کرنے والے مومنین یہ جاننے کا حق کیوں نہیں رکھتے کہ ان شاعروں سے اشعار کے ذریعہ نصیریت کی تبلیغ و ترویج شیعوں کے درمیان کون کرارہا ہے؟
ایک اور شاعر نے اپنے شعر میں نجس نصیریوں کے نظریئے کی اس طرح حمایت کی ہے :
لب پر ہے آیتوں کا سفر چپ ہے کائنات
آیا نصیریوں کا خدا بولتا ہوا
شاعر کو اسی بات پر اصرار ہے کہ اپنے اشعار میں اسی فکر اور اصطلاح ﴿حضرت علی (ع)کو نصیریوں کا خدا﴾استعمال کرے گا جسے ائمہ طاہرین اور مراجع تقلید نے منع فرمایا ہے ،اسی شعر سے ایسے شاعروں کی ہٹ دھرمی اور فکر کا اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ وہ کس طرح بار بار اپنے اشعار میں امام علی (ع) جیسے مقدس اور طاہر امام کو نجس نصیریوں سے نسبت دیتے ہیں ، امام علی (ع) کے بہت سے مبارک القاب کو چھوڑ کر خود ساختہ لقب ’’نصیری کا خدا‘‘ استعمال کرنا خلاف دیانت و عقل ہے ،محفل تو اہل البیت (ع)کی ہو اور اس میں مدح سرائی کی جائے اُن کے دُشمن نصیریوں کی اور مسند نشین علماء خاموش تماشائی ہوں !
ایک اور شاعر نے عقیدۂ توحید سے بے پروا یہ کہہ دیا:
علی (ع) کو خدا کہتے ہیں کہنے دو
یعنی اگر اسلامی معاشرے میں مشرک نصیریوں کی فکر پروان چڑھ رہی ہے تو چڑھنے دو ، انہیں اس بات کا کوئی ملال نہ ہوگا کہ لوگوں میں توحید کا عقیدہ کمزور ہوجائے گا ، اگر آپ ائمہ طاہرین کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں گے تو تمام ائمہ معصومین (ع) سماج میں توحید کا نظریہ مستحکم کرتے نظر آئیں گے اور یہ شاعر توحید کے نظریئے کا گلا گھوٹ رہاہے ،پھر بھی مولائی ہے ! جب کہ سب سے بڑا مولائی وہی ہو سکتا ہے جس کا توحید پر عقیدہ سب سے زیادہ مضبوط ہو.
ایک اور شاعر نے اس طرح کہا کہ:
نصیری دیکھ لیتے گر رُخِ عباس(ع) جھولے میں
علی (ع) سے معذرت کرکے خدا تبدیل کرلیتے
اس شعر میں شاعر نے حضرت عباس (ع) کے مقابلے امام علی (ع) جیسے معصوم کا مرتبہ کم کرنے کی کوشش کی ہے ،شاعر کے بقول اگر نصیری جھولے میں حضرت عباس (ع)کو دیکھ لیتے تو پھر اُن کی نگاہ میں امام علی (ع) نہ آتے اور پھروہ امام علی (ع) کے بجائے حضرت عباس (ع)کو خدا کہنا شروع کردیتے ، یہ تو تاریخی حقیقت کے بھی خلاف ہے ، نصیری فرقہ حضرت علی (ع) کے زمانہ میں تھا ہی نہیں یہ فرقہ تو امام علی نقی (ع) کے زمانہ میں پیدا ہوا ہے .
ایک اور شاعر نے تو سبھی کو نصیری بنادیا ،کہتاہے :
سب کے دل ہم نے ٹٹولے ہیں خبر ہے ہم کو
سب نصیری ہیں مگر جرأت اظہار نہیں
اگر شاعر کو معلوم ہوجاتا کہ ائمہ(ع) نصیریوں سے سخت بیزار تھے تو یہ مومنین کو نجس نصیریوں سے تشبیہ نہ دیتا ، یہ تو مومنین کی اعلانیہ توہین ہے اور کھلا ہوا جھوٹ ہے ،مومنین پر جھوٹ بول کر بھی شاعر ، شاعر اہل البیت (ع) ہے !؟
شعر و ادب میں مبالغے کے نام پر جھوٹ کا سہارا لینا عام بات ہے مگر یہ کام تغزل میں زیادہ ہوتا ہے ،عرب کے متنبی شاعر نے اپنے کالے کلوٹے ممدوح کو کافور کہہ ڈالا جب کہ کافور کی سفیدی مشہور و معروف ہے ،لیکن مذہبی مدحیہ اشعار میں مبالغہ استعمال کرتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے جس کا خیال بعض شاعر نہیں رکھتے ،اسی لئے اشعار    نا مناسب ہوجاتے ہیں .
مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ ہو:
ذرا دیکھیں مسلمانو! مدد کو کون آتا ہے
ادھر میں یا علی کہتا ہوں اور تم یا خدا کہنا
شاعر نے اس شعر میں حضرت علی علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کو ایک دوسرے کے مقابلہ میں کھڑا کردیا ہےاور ایسا ظاہر کیا ہے جیسے حضرت علی علیہ السلام کی الگ پارٹی ہو اور اللہ تعالیٰ کی الگ پارٹی ہو اور دونوں ایک دوسرے کے مقابلے پر کھڑے ہوں اور اللہ تعالیٰ حضرت علی سے کمزور ہو [ معاذ اللہ] یہ عقیدہ صحیح نھیں ہے اور شیعہ مسلمان اس عقیدے سے بیزار ہیں
ایک شاعر نے جبریل جیسے معصوم فرشتے کو بھی نہ بخشا جسے ’’امین وحی‘‘ کا خطاب ملا ہواہے ،اور اس طرح جبریل امین سے خطاب کیا ہے جس طرح نوکروں سے کیا جاتا ہے ، اگر اس طرح اس شاعر سے خطاب کیا جاتا تواسے بھی ناگوار گزرتا ، کہتا ہے کہ :
جبریل ذرا جاکے دو چار ٹکٹ لےآ
لے جاؤں گا میں سارے پریوار کو جنت میں
معصوم فرشتے کی توہین کرکے جنت میں جانے کی آرزو! کوئی صحیح فکر والا انسان نہیں کرسکتا .
ایک اور شاعراللہ میں عیب نکالتے ہوئے رسول اللہ (ص)کو اس طرح مشورہ دیتا ہے :
منصب عزیز ہے تو جھجک چھوڑیئے رسول(ص)
اللہ اپنی ضد پہ اڑا ہے غدیر میں
شیعہ عقائد میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ اللہ کی ذات میں کوئی نقص یا عیب نہیں پایا جاتا لیکن یہ شاعر کس طرح اپنے آپ کو مکتب اہل البیت (ع) میں شمار کرتا ہے !؟یہ تو شیعہ مسلمات کا مذاق اڑاتے ہوئے اللہ میں بھی عیب نکال رہاہے !اور اللہ کو ضدی بتا رہاہے جب کہ ایک عام انسان بھی جانتا ہے کہ ضد ایک عیب ہے ، نقص ہے جو اللہ میں نہیں ہو سکتا.
اسی طرح ایک اور شاعر نے اللہ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ:
علی (ع) پیدا اگر ہوتے ابوطالب (ع) ہی کے گھر میں
تو پھر اللہ میاں اپنا پتہ تبدیل کرلیتے
یہ بات شیعہ عقائد کے مسلمات میں سے ہے کہ خدا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے ، اس کو ایک جگہ سے مخصوص نہیں کیا جاسکتا اور ویسے بھی اللہ تعالیٰ نور ہے مجسم نہیں ہے جسے پتہ بنانے یا اُسے تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آئے، یہ شعر شاعر کی گھٹیا سوچ کا نتیجہ ہے جو ایک مسلمان سے بعید ہے ،اسی طرح ایک اور شاعر نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ شعر کہا:
اللہ کا رکھا ہے بھرم اہل بیت (ع) نے
اللہ کیا رکھے گا بھرم اہل بیت (ع)کا
وہ اللہ جو پوری کائنات کا مالک ہو ،جس کے قبضے میں پوری کائنات ہو ،جس نے اہل البیت (ع)کو یہ مقام و فضیلت عطا کی ہو وہ اللہ اہل البیت (ع)کا بھرم نہیں رکھ سکتا؟ اگر اللہ نے اہل بیت (ع)کا بھرم نہیں رکھا اور انہیں یہ منزلت و توقیر عطا نہیں کی ہے تو پھر کس نے کی ہے ؟ اس شعر سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اہل البیت (ع) اللہ سے بھی زیادہ بااختیار اور طاقتور ہیں اور اللہ کی الگ پارٹی ہے اور اہل البیت(ع) کی الگ پارٹی ہے ﴿نعوذ باللہ﴾ ،جب کہ اہل البیت (ع)کو جتنا بھی اختیار دیا ہے وہ اللہ ہی نے دیا ہے ، اور اہل البیت(ع) کو اس قابل اللہ ہی نے بنایا ہے کہ وہ اللہ کے دین کا بھرم رکھ لیں ،مگر یہ بات شاعر کی سمجھ میں نہیں آئی ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شعرأ کو عقائد کی تعلیم کی کتنی ضرورت ہے ،جس چیز کویہ عقائد سمجھنے لگے ہیں وہ عقائد نہیں ہیں بلکہ عقیدت ﴿آستھا﴾ہے.
ایسے شعر شیعہ سماج میں بنام مولائیت کس طرح برداشت کرلئے جاتے ہیں سوچ کر بھی تعجب ہوتا ہے ،ہمارے شیعہ سماج میں مذہب سے دفاع کی قوت کتنی کمزور ہوچکی ہے اس کا اندازہ درج ذیل اشعار سے ہوجائے گا :
ایک شاعرنے امام حسین (ع) کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے کہا :
ماتم ہی تھا ماتم ہی تھا ماتم ہی تھا ہر سو
کہتے تھے شبیر(ع) یہ ’’یا لیتنی کنت تراب‘
شاعر نے مذکورہ شعر کے دوسرے مصرع میں سورۂ نباکی چالیسویں آیت امام حسین (ع) سے منسوب کرکے غضب کرڈالا اور وہ بجائے ثواب کے دو گناہ کا مستحق ہوا ایک تو اپنی مرضی سے قرآنی آیت کی تفسیر کرنے کا گناہ ،دوسرے امام معصوم حضرت امام حسین (ع) پر جھوٹ باندھنے کا گناہ ، مذکورہ آیت کے مصداق کفار ہیں جو روز محشر اپنا سیاہ نامہ اعمال دیکھنے کے بعد کہیں گے ’’یا لیتنی کنت ترابا‘‘اے کاش! ہم مٹی ہوگئے ہوتے ، جب کہ شاعر نے امام حسین (ع) پر بہتان باندھا ہے کہ روز عاشور مصائب و آلام سے پریشان ہوکر امام حسین (ع) نے فرمایا : اے کاش! میں مٹی ہوگیا ہوتا ﴿نعوذ باللہ﴾واقعات کربلا کا مطالعہ کرڈالئے کہیں پر بھی شدید سے شدید مصائب و آلام میں گرفتار ہوجانے کے باوجود امام حسین (ع) اپنے انقلابی اقدام پر پشیمان نظر نہیں آتے ،امام حسین(ع) مولائے کائنات کے فرزند ہیں جنہوں نے سر پر ضربت لگنے کے بعد بجائے پشیمانی کے اس طرح اپنی کامیابی کا اعلان فرمایا تھا : ’’رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا‘‘(7)لیکن شاعر نے اپنے شعر میں کس طرح امام حسین (ع) سے متعلق ایسی فکر پیش کردی جس کا تعلق شیخین یعنی حضرت عمر و ابو بکر کی فکر سے ہے ،عالم اہل سنت علامہ متقی ہندی نے کنزالعمال میں تحریر کیا ہے کہ حضرت ابو بکر نے کہاکہ:
کاش! میں راستے کے کنارے پرایک درخت ہوتا اور گزرتا ہوا اونٹ مجھے ہضم کرلیتا پھر میں میگنی بن کر نکل جاتا مگر انسان نہ ہوتا .(8)
حضرت عمر نے کہاکہ:
کاش! میں پالتو مینڈھا ہوتا اور گھر والے مجھے پرورش کرکے خوب موٹا تازہ کر لیتے اور پھر ان کے ملنے جلنے والے ان سے ملنے آتے تو وہ مجھے پکاکر ان کو کھلا دیتے اور میں فضلہ بن کر نکل جاتا مگر انسان نہ ہوتا(9)
ایک اور شاعر نے چوتھے امام(ع) کی شان میں اس طرح کہا :
اے کاش مجھ کو ماں نے پیدا کیا نہ ہوتا
میں آج قید ہوکر در در پھرا نہ ہوتا
اس مصرع میں بظاہر چوتھے امام (ع)کا قول نقل کیا گیا ہے مگر یہ قول اور فکر چوتھے امام کی ہرگز نہیں ہوسکتی ، امام زین العابدین (ع) کے لئے یہ اسیری اور مصائب بہترین موقع تھے کہ آپ (ع) مقصد امام حسین (ع) اور عظمت اہل البیت (ع)کو شام و کوفہ کے لوگوں تک پہنچادیں اور یہ جو عزاداری آج ہم تک پہنچی ہے یہ بھی چوتھے امام اور جناب زینب(ع) کی مرہون منت ہے لہٰذا آپ(ع) ایسا نہیں کہہ سکتے تھے بلکہ آپ نے ہر ہر گام پر شکر خدا کیا ہے اور اگر کسی کتاب میں کوئی ایسا قول آپ (ع) سے منسوب ہو بھی تو یہ بنی امیہ کی کارستانی ہوسکتی ہے ، یہ فکر تو حضرت عمر کی تھی ،علامہ متقی ہندی نے کنزالعمال میں عامر بن ربیعہ سے روایت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت عمر نے کہا کہ:
’’لیت امی لم تلدنی‘‘
’’کاش! مجھے میری ماں نے پیدا نہ کیا ہوتا ‘’(10)
اس کے علاوہ یہ شعر ملاحظہ ہو  :
ہر ایک صبح بنارس ہے مثل مشہد طوس
ہر ایک رات ہے گویا عماریوں کا جلوس
صبح بنارس اس لئے مشہور ہوئی کیونکہ بنارس میں دریائے گنگا بہہ رہی ہے اور ہندوؤں کے نزدیک گنگا مقدس ندی ہے جس میں نہاکر ان کے بقول گناہ میل کچیل کی طرح صاف ہوجاتے ہیں ،اس عقیدے کی بنیاد پر ہندو مردوں کے ساتھ ساتھ ہندو عورتیں اور دوشیزائیں بھی گنگا میں نہانے جایا کرتی ہیں اور اکثر یہ غسل صبح سویرے ہوتا ہے اور دیکھنے والوں کو یہ منظر اچھا لگتا ہے ، ایسی صبح مشہد مقدس کے مثل ہرگز نہیں ہوسکتی ،مشہد مقدس وہ مقام ہے جہاں مستقل ملائکہ کا نزول اور مومنین کا ہجوم رہتا ہے اور صبح بنارس یعنی عورتوں مردوں کا مخلوط غسل !
ایک اور شاعر نے حضرت رسول خدا (ص)کی بے احترامی کرتے ہوئے رسول خدا پر یوں الزام لگایا ہے:
خیبر میں علم دے کے حیدر(ع) کو محمد(ص) نے
اک آگ سی بھڑکادی سینوں میں رقابت کی
یعنی شاعر کے نزدیک رسول اللہ (ص)نے حضرت علی (ع)کو علم دے کر غلط کیا ﴿نعوذ باللہ﴾ اگر حضور اکرم (ص) نے خیبر میں حضرت علی (ع)کو علم دیا تو اس میں حضور (ص) نے رقابت نہیں بھڑکائی بلکہ یہ اُن لوگوں کے نفس کی خرابی تھی جنہوں نے اس سلسلہ میں رقابت کی ، اگر ان لوگوں کا نفس پاک ہوتا تو اطمینان سے انتظار کرتے ،شاعروں کی جرأت تو دیکھئے کہ معصومین (ع)کو مشورے دیتے ہیں ،ان کے کاموں میں خامیاں نکالتے ہیں ،کتنا برا دور آگیا ہے ، شاعروں کی جسارتیں حد سے بڑھ گئی ہیں ، پھر بھی یہ شاعر اہل البیت (ع) ہیں !؟
ایک اور شاعر نے کہا :
خیبر کی بات اور تھی تھے مرتضیٰ وہاں
وہ جن کی تیغ چلتی تھی نسلوں کو دیکھ کر
یہ کربلا ہے اور یہ عباس (ع) ذی حشم
جبریل آج رکھنا پروں کو سنبھال کر
شاعر کس بے باکی سے جبریل جیسے فرشتے کو مشورہ دے رہاہے کہ اپنے پروں کو سنبھال کر رکھنا ،جب حضرت عباس(ع) تلوار چلائیں گے تو انہیں معصو م فرشتے کے پر بھی نظر نہیں آئیں گے یا اگر نظر آئیں گے تو ان کی بھی رعایت نہیں ہوگی ،سب جانتے ہیں کہ وہ غصہ جس میں انسان اپنا کنٹرول کھودیتا ہے مذموم ہوتاہے اور شاعر وں نے ہر وقت جناب عباس (ع) کا ہاتھ قبضۂ شمشیر پر دکھایا ہے اور آپ سے ایسا غصہ منسوب کیا ہے جو عام مسلمان کے لئے بھی معیوب ہے ،حضرت عباس(ع) امام حسین(ع) کی مرضی کے تابع تھے اور اپنے امام وقت کی ایسے حالات میں اطاعت کرکے اور شمشیر کو نیام میں رکھ کر شجاعت کی مثال قائم کی ہے جب جذبات جنگ کے متقاضی تھے ،جو علی (ع)کا شیر عباس (ع)، اتنی باریک بینی سے کربلا میں حالات کا مطالعہ کررہا ہو اور امام وقت کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہو اس کے بارے میں جبریل کو ایسا مشورہ دینا کہ اپنے پروں کو سنبھال کر رکھنا ورنہ تمہاری بھی خیر نہیں ہے ،یہ مقام حضرت عباس (ع)کی عدم معرفت کی دلیل ہے ،اسی شاعرنے اپنے دوسرے شعر میں خواہ مخواہ اہل البیت(ع) اور نماز کا موازنہ کرتے ہوئے نماز کو اس طرح پیچھے ڈھکیلا ہے .
حق کا سجدہ روک کے نبی(ص) بتائے راز
پہلے اہل بیت (ع) ہیں اس کے بعد نماز
یہ شاعر کی اپنی سوچ ہوسکتی ہے جو ائمہ طاہرین کی فکر اور تعلیمات کے خلاف ہے ، ائمہ معصومین (ع) ، مراجع تقلید اور علماء ربانی میں سے کسی نے بھی اس طرح کے موازنے نہیں کئے ہیں اور نہ ہی کرنے چاہئیں ، کیونکہ اہل البیت(ع) کی امامت کا تعلق عقیدے ﴿اصول دین ﴾ سے ہے اور نماز کا تعلق عمل﴿فروع دین﴾ سے ہے ، دونوں اپنی اپنی جگہ ضروری اور لازمی ہیں دونوں میں سے کسی کو بھی ہلکا سمجھنا جائز نہیں ہے ،بغیر نماز کے اہل البیت(ع) کی محبت ناقص ہے اور محبت اہل البیت (ع) کے بغیر نماز باطل ہے .
ایک اور شاعر نے مبالغہ کرتے ہوئے نماز کو پاؤں چلنا سکھانے کی تلقین کی ہے:
اے نمازو! تم کو طے کرنا ہے اک لمبا سفر
آؤ تم اشک عزا سے پاؤں چلنا سیکھ لو
اس شعر میں نماز کی اس سے زیادہ اور کیا اہانت ہوگی کہ اس کو عزاداری کے مقابل میں طفل مکتب تصور کیا ہے ، جب کہ اسی شریعت کی پاسداری ﴿جس میں سب سے افضل نماز ہے﴾ کے لئے روز عاشور جنگ کے ماحول میں بھی امام حسین (ع) نے اس کا اہتمام کیا اور وقت آخر بھی شمر سے سجدہ کی مہلت مانگی ، اشک عزا امام حسین (ع) کے مصائب اور شہادت کی وجہ سے ہیں اور امام حسین(ع) کی شہادت اور مصائب نماز اور دوسرے احکام الٰہی کی بالا دستی کے لئے واقع ہوئی تو پھر اشک عزا کس طرح نمازوں کو پاؤں چلنا سکھا سکتے ہیں ؟
ایک اور شاعر نے رسول اسلام(ص) کی ایک صحیح حدیث کے خلاف ہی شعر کہہ ڈالا ، وہ کہتا ہے :
اوروں کو قرآن مبارک
ہم کو مبارک کل ایماں
حدیث نبوی (ص) میں ارشاد ہوتا ہے کہ علی (ع)قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی (ع) کے ساتھ ہے(11)حدیث کی روشنی میں ہمیں بے چون و چرا دونوں کو تسلیم کرنا ہے،لیکن شاعر قرآن چھوڑنے کا اعلان کررہاہے ،کیا وہ یہ نہیں جانتا ہے کہ بغیر قرآن کے علی (ع) ہمارے نہیں ہو سکتے ؟ اس کے علاوہ حضور (ص) نے تو ہمارے لئے دونوں چیزیں ﴿قرآن اور اپنی عترت﴾ چھوڑی ہیں ان میں سے اگر ہم ایک کو بھی چھوڑ دیں تو انجام بخیر نہیں ہوسکتا تو پھر شاعر کا برملا یہ کہنا کہ اوروں کو ’’قرآن مبارک‘‘!اس کے عقیدے اور فکر کو بخوبی بیان کررہاہے.
ایک اور شاعر نے فکر اہل البیت (ع) پر کاری ضرب لگاتے ہوئے کہا کہ:
سیکڑوں لوگوں کا بن جاتا ہے خود بھی رازق
حاضری حضرت عباس(ع) کی کھانے والا
دنیا میں کسی انسان کی کیا مجال جو کسی ایک جاندار کا بھی پیٹ بھردے ، سیکڑوں لوگوں کا رازق بن جانا تو دور کی بات ہے، اپنے کو رازق سمجھتے ہوئے انسان کسی ایک پرندے تک کا پیٹ نہیں بھر سکتا ،جناب سلیمان پیغمبر (ص)بھی ایک مچھلی کا پیٹ نہ بھر سکے تھے ،آج کل صرف ردیف قافیے فٹ کرنا اور مجلس کے نئے نئے نکات کی طرح نئے نئے قافیے اور ردیف استعمال کرنا کمال شاعری سمجھاجا تاہے جب کہ ایسا نہیں ہے ،یہ شعر آستھا میں ڈوبا ہوا تو ہو سکتا ہے مگر عقیدے سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے صحیح عقیدہ تو یہ ہے کہ ہرجاندار کا رازق صرف خداوند عالم ہے ،قرآن مجید میں اور کلام معصومین (ع) میں بارہا اس عقیدے کی تکرار کی گئی ہے ،حالانکہ یہ شاعر بھی نہیں بتا پائے گا کہ حضرت عباس(ع) کی حاضری کھانے والا سیکڑوں لوگوں کا رازق کس طرح بن جاتا ہے .
شعرأ میں اس قسم کی جسارتیں اس و جہ سے پیدا ہورہی ہیں کہ وہ نہ تو خود علم دین جانتے ہیں اور نہ ہی علماء سے اپنے اشعار پرنظر ثانی کراتے ہیں ،جس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے جو آپ نے مذکورہ اشعار میں ملاحظہ فرمایا .
لہٰذا شعرأ کے لئے ضروری ہے کہ شاعری سے پہلے ائمہ معصومین(ع) کی تعلیمات اور ان کے ا فکار کا ضرور مطالعہ کرلیں ،اسی صورت میں شعرأ ،اہل البیت(ع) کی تحریک کے لئے مفید ہوسکتے ہیں ورنہ اسی طرح اہل البیت (ع)کی فکر کو نقصان پہنچاتے رہیں گے جس کا خمیازہ کئی کئی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا .
منابع
(1) علامہ مجلسی ، بحار الانوار، جلد 76، صفحہ 291، باب 108، مطبوعہ بیروت.
(2) شیخ صدوق ، عیون اخبار الرضا، جلد۱، صفحہ 304، باب فیما جآئ عن الامام علی بن موسی من الاخبار المتفرقۃ ، حدیث 63،ناشر نشر جہان تہران ، پہلا ایڈیشن 1378ھ
(3) سورۂ ہود ، آیت 6.
(4) نہج البلاغہ ، خطبہ 90، ترجمہ علامہ جوادی، مطبوعہ قم.
(5) شیخ صدوق و شیخ مفید ، اعتقادات الامامیہ ، جلد۱، صفحہ 100، باب الاعتقاد فی نفی الغلو و التفویض، ناشر شیخ مفید کانگریس قم ، دوسرا ایڈیشن 1414ھ.
(6)نہج البلاغہ ، خطبہ90، ترجمہ علامہ جوادی، مطبوعہ قم.
(7)مسند حمد ابن حنبل ، جلد۳، صفحہ 137، ناشر دارصادر، بیروت، لبنان
(8)متقی ہندی ،کنزالعمال ،جلد12، صفحہ528، حدیث 35699، ناشر موسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان 1989ء
(9)متقی ہندی ،کنزالعمال ،جلد12، صفحہ619، حدیث 35912.
(10) متقی ہندی ،کنزالعمال ،جلد12، صفحہ619، حدیث 35914.
(11)علی بن عبیداللہ بن بابویہ رازی ، الاربعون حدیثا، صفحہ 73، ناشر مدرسہ امام مہدی (ع) قم.

Popular posts from this blog

Kya Rahib aur fitrus farishta ka waqia sahih hai?

क्या फरिश्ता फितरुस और राहिब का वाक्य सही है? کیا فرشتہ فطرس اور راہب کا واقعہ صحیح ہے؟ Kya Rahib aur fitrus farishta ka waqia sahih hai? Yeh sawal hum ne Grand Ayatullah Shaikh Muhammad Hussain Najafi se December 2012 me kiya tha, unka jawab yaha attached kiya gaya hai Waqia of Fitrus:  When Imam Husain (AS) was born, Allah sent down the angel Jibrail (AS) to congratulate the family.On the way down from the heavens angel Jibrail (AS) passed an island, on which the angel Fitrus was sent to by Allah because he had been naughty. Fitrus had also had his wings taken away by Allah.When Fitrus saw Jibrail (AS) he asked him where he was going. Jibrail (AS) told him that he was going to congratulate the Holy Prophet (SAW) and his family on the birth of Imam Husain (AS).Fitrus asked if he could also go with him. Jibrail (AS) agreed with the permission of Allah and so carried him down to earth.When the angels reached the Holy Prophet (SAW) and congratulated him and his family

Khaliq aur Raziq khuda ke siwa koi nahi - gulu karne wala ko muh tod jawab

For praying DUA (eg: help/dua/hajat/rizq/aulad etc), which is correct answer according to Hadith and Quran? 1. Asking directly from Allah (SWT) with the Waseela of Masoomeen (A.S) 2. Asking directly Masoomeen (A.S) (of course Allah is the main source) 3. Both options are correct Kaun Dua Qabool karta hai?: Tumhare Rab ne farmaya hai Mujhe pukaaro mai Tumhari Dua qabool karonga beshak jo log meri ibaadat sarkashi karte hain, anqareeb wo zaleel hokar dozakh me dakhil honge. (40:60) Allah(SWT) ne farmaya char khaslate hain jin me se ek mere liya hai, ek tere liye hai, ek tere aur mere darmiyan hai aur ek tere darmiya aur mere dosre bando ke darmiya. 1. Jo khaas mere liya hai wo to yeh hai ke meri hi ibadat kar aur mere saath shareekna kar. 2. Aur jo tera haq mujh par hai wo yeh ke tere har amal-e-khair ka bharpoor badla mai tujhe dunga. 3. Aur jo tere mere darmiya hai wo DUA kar, mai qabool kiya karonga 4. aur chauti khaslat jo tere aur m

The Prophet Crying For Imam al-Husain

The Prophet Crying For Imam al-Husain ===================================== Narrated Salma:        "I went to visit Umm Salamah and found her weeping. I asked her what      was making her weep and she replied that she had seen Allah's                                               ^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^      Messenger (PBUH&HF) (meaning in a dream) with dust on his head and      ^^^^^^^^^^                               ^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^      beard. She asked him what was the matter and he replied, `I have just      ^^^^^      been present at the slaying of al-Husayn.'"   - Sahih Tirmidhi, per: - Mishkat al-Masabih, by Khatib al-Tabrizi, English Version, Tdadition #6157   Narrated Abdullah Ibn Abbas:        One day at midday he saw in a dream the Prophet (PBUH&HF) dishevelled                                          ^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^      and dusty w