نماز میں ہاتھ کھولنا یاباندھنا؟
اہل سنّت کے تین نظریات
نجم الدین طبسی
خلاصہ :
ہمیں (اہل سنّت کی) کوئی ایسی کتاب نہیں ملی جس میں ( نماز میں ہاتھ باندھنے کو) واجب قرار دیا گیا ہو اور وجوب کی نسبت صرف اہل سنّت عوام کی طرف دی جاتی ہے .کتب اہل سنّت میں اس سلسلے میں بیان کی جانے والی روایات وآثار کی تعداد (قطع نظر اس سے کہ ان کی سند ضعیف ہے)بیس تک جا پہنچتی ہے ان میں سے ایک روایت ابو حازم سے صحیح بخاری میں نقل ہوئی ہے ۔
متن:
اہل سنّت میں نماز میں ہاتھ باندھنے کے بارے میں تین طرح کے مختلف نظریا ت پائے جاتے ہیں:
١۔مکروہ ہے.
٢۔ اس کا انجام دینا کراہت نہیں رکھتا اور ترک کرنا مستحب نہیں ہے .
٣۔ مستحب ہے.( ١)
ہمیں (اہل سنّت کی) کوئی ایسی کتاب نہیں ملی جس میں ( نماز میں ہاتھ باندھنے کو) واجب قرار دیا گیا ہو اور وجوب کی نسبت صرف اہل سنّت عوام کی طرف دی جاتی ہے .(٢)
کتب اہل سنّت میں اس سلسلے میں بیان کی جانے والی روایات وآثار کی تعداد (قطع نظر اس سے کہ ان کی سند ضعیف ہے)بیس تک جا پہنچتی ہے ان میں سے ایک روایت ابو حازم سے صحیح بخاری میں نقل ہوئی ہے ۔(٣)لیکن جیسا کہ عینی نے (٤) شوکانی نے (٥)اوردیگر فقھاء نے اسکی تصریح کر دی ہے کہ اس حدیث میں مرسل و منقطع ہونے کا شبھہ پایا جاتا ہے۔
-------------
١۔البیان والتحصیل ١:٣٩٤.
٢۔الفقہ الاسلامی وأدلّتہ ٤: ٨٧٤؛المجموع ٣:٣١٣؛المغنی ١: ٥٤٩؛المبسوط سرخسی ١:٢٣.
٣۔صحیح بخاری ١: ١٣٥.
٤۔عمدة القاری فی شرح صحیح بخاری ٥:٢٨٠.
٥۔نیل الأوطار ٢:١٨٧.
اسی طرح دوسری حدیث صحیح مسلم کے اندر ابووائل سے نقل ہوئی ہے اور یہ حدیث بھی مرسل ومنقطع ہونے کی آفت میں مبتلا ہے.اس لئے کہ علقمہ کی اپنے والد سے نقل کی جانے والی ر ویات مرسل ہیں ابن حجر نے اسے واضح طور پر بیان کردیا ہے ۔(١)
اور باقی روایات کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود اہل سنّت کے ہاں انہیں ضعیف شمار کیا گیا ہے اوراصحاب سنن وجوامع اور علمائے رجال کے اقرار کے مطابق ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا .اس بناپر نماز میں ہاتھ باندھنے پر کوئی جواز باقی نہیں رہتا ۔
اسکے علاوہ یہ خود ایک عمل اور فعل ہے جس کے نماز میں جائز ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے لہذا اسے جائز یا سنّت یا آداب نماز میں سے ہونے کے قصد سے انجام دینا بے شک حرام ہے ۔ اس لئے کہ اسکی حرمت کے لئے یہی کہنا کافی ہے کہ شریعت میں اس کے جوازپر کوئی دلیل نہیں پائی جاتی ہے بلکہ اس کے بر عکس اس کے انجام دینے کے متعلق نہی ثابت ہے۔( ٢)
اہل بیت علیہم السلام نے بھی اس کے انجام دینے سے منع فرمایا ہے اور پھر نماز میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا ایک عمل ہے جس کا نماز میں انجام دینا جائز نہیں ہے .جیسا کہ ابن رشد نے بھی اس بات(یا اسی سے ملتی جلتی بات)کی طرف اشارہ کیا ہے .
اور آئمہ علیہم السلام کا اسے (تکفیر ) سے تعبیر کرنا جسے مجوسی انجام دیا کرتے(٣)یہ اس عمل کے سنّت پیغمبر ۖ میں سے نہ کی تائید بلکہ اس پر تاکید ہے ۔
-------------
١۔ تہذیب التہذیب ٨: ٣١٤.
٢۔مصباح الفقیہ ١:٤٠١.
٣۔ کتاب آئینہ آئین مزدیسنی ٫٫اشاعت دوّم،، تالیف کیخسرو صفحہ ٢٠پر لکھا ہے : ان کے ہاں نماز اور عبادت کا طریقہ کا ر اپنے خداکے سامنے کھڑے ہو کر دست عبودیت کو سینے پر رکھنا ہے اور وہ یوں عبادت و پرستش کرتے ہیں.
نماز میں ہاتھ باندھنے کے متعلق اہل سنّت فقھاء میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا ہاتھوں کو ناف کے اوپر رکھا جائے یا اس سے نیچے ؟ دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا جائے یا بالعکس ؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا عمل جس کی کیفیت تک مشخص نہیں ہے وہ کس طرح سنّت مؤکدہ ہو سکتا ہے؟اور پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ صحابہ کرام جو مستحبی نمازوںکے علاوہ نماز میّت ،نماز عیداورروزانہ کی نمازیں پیغمبر ۖ کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کے پابند تھے ان پر اس (نماز میں ہاتھ باندھنے ) کی کیفیت مخفی رہی ہو!
یہ تمام شواہد اور تاکیدات اس بات کی علامت ہیں کہ پیغمبر ۖ کے زمانے میں ایسے عمل کا کوئی وجود نہیں تھا.اس بناپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا بھی نماز تراویح باجماعت اداکرنے،اذان میں الصلاة خیر من النوم کے اضافہ کرنے،اذان سے حی علی خیر العمل کے نکالنے ،متعہ کی دونوںقسموں( متعہ الحجّ اور متعة النکاح) کوحرام قرار دینے اور تدوین احدیث سے منع کرنے جیسے امور میں سے ہے جوپیغمبر ۖ کے بعد وجود میں آئے۔
اہل سنّت کے تین نظریات
نجم الدین طبسی
خلاصہ :
ہمیں (اہل سنّت کی) کوئی ایسی کتاب نہیں ملی جس میں ( نماز میں ہاتھ باندھنے کو) واجب قرار دیا گیا ہو اور وجوب کی نسبت صرف اہل سنّت عوام کی طرف دی جاتی ہے .کتب اہل سنّت میں اس سلسلے میں بیان کی جانے والی روایات وآثار کی تعداد (قطع نظر اس سے کہ ان کی سند ضعیف ہے)بیس تک جا پہنچتی ہے ان میں سے ایک روایت ابو حازم سے صحیح بخاری میں نقل ہوئی ہے ۔
متن:
اہل سنّت میں نماز میں ہاتھ باندھنے کے بارے میں تین طرح کے مختلف نظریا ت پائے جاتے ہیں:
١۔مکروہ ہے.
٢۔ اس کا انجام دینا کراہت نہیں رکھتا اور ترک کرنا مستحب نہیں ہے .
٣۔ مستحب ہے.( ١)
ہمیں (اہل سنّت کی) کوئی ایسی کتاب نہیں ملی جس میں ( نماز میں ہاتھ باندھنے کو) واجب قرار دیا گیا ہو اور وجوب کی نسبت صرف اہل سنّت عوام کی طرف دی جاتی ہے .(٢)
کتب اہل سنّت میں اس سلسلے میں بیان کی جانے والی روایات وآثار کی تعداد (قطع نظر اس سے کہ ان کی سند ضعیف ہے)بیس تک جا پہنچتی ہے ان میں سے ایک روایت ابو حازم سے صحیح بخاری میں نقل ہوئی ہے ۔(٣)لیکن جیسا کہ عینی نے (٤) شوکانی نے (٥)اوردیگر فقھاء نے اسکی تصریح کر دی ہے کہ اس حدیث میں مرسل و منقطع ہونے کا شبھہ پایا جاتا ہے۔
-------------
١۔البیان والتحصیل ١:٣٩٤.
٢۔الفقہ الاسلامی وأدلّتہ ٤: ٨٧٤؛المجموع ٣:٣١٣؛المغنی ١: ٥٤٩؛المبسوط سرخسی ١:٢٣.
٣۔صحیح بخاری ١: ١٣٥.
٤۔عمدة القاری فی شرح صحیح بخاری ٥:٢٨٠.
٥۔نیل الأوطار ٢:١٨٧.
اسی طرح دوسری حدیث صحیح مسلم کے اندر ابووائل سے نقل ہوئی ہے اور یہ حدیث بھی مرسل ومنقطع ہونے کی آفت میں مبتلا ہے.اس لئے کہ علقمہ کی اپنے والد سے نقل کی جانے والی ر ویات مرسل ہیں ابن حجر نے اسے واضح طور پر بیان کردیا ہے ۔(١)
اور باقی روایات کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود اہل سنّت کے ہاں انہیں ضعیف شمار کیا گیا ہے اوراصحاب سنن وجوامع اور علمائے رجال کے اقرار کے مطابق ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا .اس بناپر نماز میں ہاتھ باندھنے پر کوئی جواز باقی نہیں رہتا ۔
اسکے علاوہ یہ خود ایک عمل اور فعل ہے جس کے نماز میں جائز ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے لہذا اسے جائز یا سنّت یا آداب نماز میں سے ہونے کے قصد سے انجام دینا بے شک حرام ہے ۔ اس لئے کہ اسکی حرمت کے لئے یہی کہنا کافی ہے کہ شریعت میں اس کے جوازپر کوئی دلیل نہیں پائی جاتی ہے بلکہ اس کے بر عکس اس کے انجام دینے کے متعلق نہی ثابت ہے۔( ٢)
اہل بیت علیہم السلام نے بھی اس کے انجام دینے سے منع فرمایا ہے اور پھر نماز میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا ایک عمل ہے جس کا نماز میں انجام دینا جائز نہیں ہے .جیسا کہ ابن رشد نے بھی اس بات(یا اسی سے ملتی جلتی بات)کی طرف اشارہ کیا ہے .
اور آئمہ علیہم السلام کا اسے (تکفیر ) سے تعبیر کرنا جسے مجوسی انجام دیا کرتے(٣)یہ اس عمل کے سنّت پیغمبر ۖ میں سے نہ کی تائید بلکہ اس پر تاکید ہے ۔
-------------
١۔ تہذیب التہذیب ٨: ٣١٤.
٢۔مصباح الفقیہ ١:٤٠١.
٣۔ کتاب آئینہ آئین مزدیسنی ٫٫اشاعت دوّم،، تالیف کیخسرو صفحہ ٢٠پر لکھا ہے : ان کے ہاں نماز اور عبادت کا طریقہ کا ر اپنے خداکے سامنے کھڑے ہو کر دست عبودیت کو سینے پر رکھنا ہے اور وہ یوں عبادت و پرستش کرتے ہیں.
نماز میں ہاتھ باندھنے کے متعلق اہل سنّت فقھاء میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا ہاتھوں کو ناف کے اوپر رکھا جائے یا اس سے نیچے ؟ دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا جائے یا بالعکس ؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا عمل جس کی کیفیت تک مشخص نہیں ہے وہ کس طرح سنّت مؤکدہ ہو سکتا ہے؟اور پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ صحابہ کرام جو مستحبی نمازوںکے علاوہ نماز میّت ،نماز عیداورروزانہ کی نمازیں پیغمبر ۖ کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کے پابند تھے ان پر اس (نماز میں ہاتھ باندھنے ) کی کیفیت مخفی رہی ہو!
یہ تمام شواہد اور تاکیدات اس بات کی علامت ہیں کہ پیغمبر ۖ کے زمانے میں ایسے عمل کا کوئی وجود نہیں تھا.اس بناپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا بھی نماز تراویح باجماعت اداکرنے،اذان میں الصلاة خیر من النوم کے اضافہ کرنے،اذان سے حی علی خیر العمل کے نکالنے ،متعہ کی دونوںقسموں( متعہ الحجّ اور متعة النکاح) کوحرام قرار دینے اور تدوین احدیث سے منع کرنے جیسے امور میں سے ہے جوپیغمبر ۖ کے بعد وجود میں آئے۔